حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

اتوار، 28 دسمبر، 2014

میں بھارت اور امریکہ کے روشن مستقبل کی امید یں اپنے ساتھ لایا ہوں/ فرینک اسلام

روداد سفر 

تحریر ہند نزاد امریکی دانشور فرینک اسلام کی ہے

واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں اپنے چالیس سال  سے زیادہ عرصے کے دوران قیام  میں کئی بار بھارت آیا ، ہر دوسرے سال موسم سرما میں اپنے بھائیوں بھتیجوں  اور بھتیجیوں کے ساتھ اعظم گڑھ  آتا ، یہ میرا آبائی وطن ہے ، میں نے اپنی زندگی  کے کئی بیش  قیمتی سال  یہاں گزارے ہیں ۔ان اسفار کا مقصد اپنے فیملی کے لوگوں سے ملاقات بھی ہوتا جن کی تعداد میں اب اضافہ ہو چکاہے۔
دوران سفر میری مصروفیات  کچھ اس طرح رہتیں خاص طور سے دہلی  اور ممبئی میں کچھ ملاقاتیں  اور سرکاری پروگرام  شامل رہتا، میرے یہ اسفار  زیادہ تر ذاتی نوعیت کے ہوا کرتے تھے جس میں دوستوں اور رشتہ داروں کے درمیان زیا دہ وقت گزرتا ۔
لیکن اس سال گرمیوں میں جب مجھے   Brooking Institute کی جانب سے ایک اسٹڈی ٹور کےلیے بھارت  دورے کا دعوت نامہ موصول ہوا، تو اس وقت  یکا یک میرے ذہن میں ایک الگ طرح کے ہندوستان کا خیال پیدا ہوا ، ایک ایسے دور کے بارے میں جس میں دونوں ملکوں کے لوگوں کے درمیان نہ صرف ثقافتی و تہذیبی رشتوں کی  مضبوطی  کی بات تھی بلکہ علم و فن  اور معیشت کے  فروغ کی کو شش  کے بھی نقش ابھر رہے تھے ۔
 دیکھنے کی بات یہ کہ اس  دس روزہ مختصر دورے کا  کیا حاصل رہا اس پرہماری خصوصی توجہ ہونی چاہیے سب سے پہلے  وفد  کے  تعارف کے تعلق سے کچھ باتیں ، ہما رے اس 24رکنی وفد کی قیادت Strobe Talbott کر رہے تھے  جو کہ  بروکنگ کےIndophile president ہیں ۔ وفد نے ہندوستان کے تین بڑے شہروں  دہلی ،ممبئی اور بنگلور  کے علاوہ تاریخی و ثقافتی اہمیت کے حامل  جودھ پور اور آگرہ کا دورہ کیا ۔
چوبیس رکنی یہ وفد 31اکتوبر 2014 کو بھارت پہونچا ، جس میں کئی اہم اداروں کے ٹرسٹی ،رکن اورمختلف ایڈوائزری بورڈوں و کونسل کے ممبران  شامل تھے ۔ اس پورے دورے میں ہمیں ہندوستان کے تجارتی میدان کی اہم  ہستیوں، پالیسی سازوں اور سیاست دانوں سے ملکر بھارت کو انتہائی قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا نادر موقع ملا ۔
مجھے یہ سمجھنے میں  دیر نہیں لگی کہ نومبر 2014 کا بھارت فروری 2013 کے بھارت سے  اب کافی بدل ہو چکا ہے ۔ منموہن سنگھ سے نریندر مودی  کو اقتدار کی متقلی  نے بھارت کو یکسر تبدیل کر دیا ہے ۔ گزشتہ سال کے اوائل میں جب میں یہاں آیا تھا  تھا اس وقت یہاں کے لوگوں کے  ذہنوں پر اداسی  تھی ، یو پی اے حکومت بدترین بداعتمادی کی صورت حال سے دوچار تھی ، مسلسل اقتصادی گراوٹ اور پے درپے منکشف ہونے والے گھپلوں  کی وجہ سے متوسط  طبقے نےحکومت پر سے اپنا اعتماد کھو دیا تھا ، اوراقتصاد ی اصلاحات کے نفاذ میں سست روی کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی بھی  دلچسپی ختم ہوچلی تھی ۔
لیکن نومبر 2014 میں حالات یکسر تبدیل ہو چکے تھے ،اب لو گ ایک نئے جوش و جذ بے سے لبریز اور کچھ گزرنے کی تمنا لیے ہوئے نظر آرہے تھے ۔ اور  یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ نریندر مو دی نے ملک کی معیشت کی بہتری کے  لیے مختلف میدانوں کی صورت حال کا رخ ہی موڑ دیا ۔ اسی کے پیش نظر Goldman Sachs نے پیش  گوئی کی  ہے کہ آنے والے دنوں میں بھارتی معیشت میں مسلسل تیزی آئے گی ان کا ماننا ہے کہ  بھارتی معیشت اس سال  6 فیصد ،2015 میں 6اعشاریہ  3 فیصد،2016 میں6 اعشاریہ 8 فیصد اور 2017 میں 7 تک  پہونچ جائے گی ۔
قابل اطمینان بات یہ ہے کہ اس وقت بھارت میں افراط زر پوری طرح قابو میں ہے اوراس کے ساتھ ہی  RBI کے گورنر رگھو رام راجن کا  بھی شکریہ اداکرنا ضروری ہے جنھوں نے  معیشت کی بھہتری کے لیے حوصلہ افزا پالیسیاں شروع کی ہیں ، رگھو رام راجن ان دنوں شکاگو یو نیورسٹی کے کے Booth School سے تعطیل  پر ہیں ۔
 وزیر اعظم نریندر مودی ملک میں بنیادی ڈھانچے کو وسعت دینے کے اپنے منصوبے پر آگے بڑھ رہے ہیں ان کے اس قدم سے معیشت کو مزید تقویت حاصل ہو گی ۔ اس دورے کے دوران ہم جن لوگوں سے ملے سب کا یہی ماننا تھا کہ بھارتی معیشت بہتری کی راہ پر گامزن ہے  نیز بھارت میں سرمایہ کاری کا یہ بہترین  وقت ہے ۔
 میں نے دوسری بات یہ بھی نوٹ کی کہ  بھارت کی نئی حکومت کو متوسط طبقے اور میڈیا کا  اعتماد حاصل ہے ، جو طبقہ مودی کی جیت لے لیے چھہ ماہ قبل سرگرم عمل تھا آج بھی مودی کے ساتھ  اسی طرح مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے ۔
سابق وزیراعظم منموہن سنگھ  کے دور اقتدار  میں یو پی اے حکومت کے آخری دو برس پالیسی کے اعتبار سے  انتہائی ناکام  رہے ، حکومتی پالیسی دیوالیہ پن کا شکار رہی اور اس درمیان مودی نے خود کو انتہائی مضبوط اور فیصلہ کن  لیڈر کے طور پر پیش  کیا ، امریکی نقطہ نظر سے اگر اس پورے معاملے جائزہ لیں تو میرے نزدیک شاید یہ بہت بڑی تبدیلی ہے، ایسا میرا احساس ہے ۔
 ایک طرح سے یہ موقع امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات کا از سر نو آغاز ہے ، مودی کے اقتدار سنبھالنے سے قبل  بھارت امریکہ تعلقات پر جمود طاری تھا  اورایک وقت ایسا بھی آیا جب امریکہ میں بھارتی سفارت کار دیویانی کھوبراگڑے کی ویزا دھوکہ دہی کے ایک معاملے میں امریکہ میں  گرفتاری کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان بد اعتمادی کی صورت حال پیدا ہو گئی تھی ۔ امریکی تجارتی ادارے  اور امریکی کانگریس نے امریکی کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ اور اقتصادی اصلاحات کے نفاذ  میں  ناکامی کے  لیے منموہن حکومت کی سخت نقطہ چینی کی تھی ۔
 حالانکہ آج بھی دونوں ملک کئی ایشوز پر الگ الگ رائے رکھتے ہیں ، دونوں ملک WTO میں فوڈ سکیوریٹی کے معاملے پر بر سر پیکار ہیں ۔
 نریندر مودی کے تعلق سے ایک بات  بہت مشہور ہے کہ وہ تجارت دوست حکمراں واقع ہوئے ہیں گجرات میں اپنے دور اقتدار میں انہوں نے عملا یہ ثابت کیا ہے ۔ مودی  نےاسی سال ستمبر میں امریکہ کا انتہائی  کامیاب دورہ مکمل کیا ہے اس دورے کے دوران  میڈسن اسکوائر میں امریکہ میں بسنے والے  18000  ہند نزاد بھارتیوں نے شرکت کی یہ ان کے رابطہ عامہ  کا اہم کارنامہ تھا ۔
بھارت اور امریکہ کے درمیان بہتر تعلقات کی واپسی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ  امریکی صدر  براک اوباما آئندہ ماہ  بھارت کی یوم جمہوریہ کے موقع پر مہمان خصوصی کے  طور پر شرکت کر رہے ہیں ،  مسٹر اوباما پہلے امریکی صدر ہیں جو آزاد بھارت کی تاریخ میں پہلی بار بھارت کی یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت  کر رہے ہیں۔
امریکی صدر براک  اوباما کے بھارت دورے کا اعلان امریکی  وفد کے بھارت دورے سے لوٹنے کے بعد کیا گیا ہے ، بھارت میں امریکی سفارت کاروں اور بھارتی افسران کے ساتھ  ہماری میٹنگیں کافی مثبت و ثمر آور رہیں ، دہلی کے سیاسی حلقوں میں  Richard Verma کو بھارت میں امریکی سفیرع مقرر کیے جانے پر بھی کافی جوش دیکھنے کو ملا ، گزشتہ ہفتے  ہی امریکی سینیٹ نے ان کی تقرری کو منظوری دے دی تھی ، وہ پہلے ہند نزاد امریکی ہیں جنہیں بھارت میں امریکہ کا سفیر بنایا گیا ہے ۔
 الغرض یہ کہ  ہمارا بھارت دورہ  بہت ہی کامیاب  رہا اس درمیان بہت  ہمیں کچھ سیکھنے کو ملا  ہم اپنے ساتھ بہت سی میٹھی یادیں  لیکرامریکہ  لوٹے ہیں ۔ اتنے بڑے وفد کایہ پہلا بھارت دورہ تھا۔  وفد کے قائد بروکنگ کے صدر ٹالبوٹ سمیت ہم سبھوں نے اس دورے سے خوب استفادہ کیا اور کثرت میں وحدت کی زندہ مثال پیش کر نے والے گونا گونیت سے لبریز اس  ملک کو سمھجنے کی بھر پور کو شش کی ۔ اس وفد میں اکیلا ہند نزاد امریکی تھا اس لیے اکثر میرے ساتھی  مجھے  interpreter of India کہہ کر پکارتے تھے ۔
 میری اہلیہ Debbieاور میں سب سے آخر میں ہندوستان سے واپس امریکہ  لوٹے ہیں ۔ نومبر کے وسط میں بھارت سے واپسی کے وقت  میں اپنے ساتھ  بھارت کے  روشن مستقبل اور بھارت امریکہ تعلقات کی مضبوطی کی امید یں لیکر لوٹا ہوں ۔

مضمون نگار ، ہند نزاد امریکی تاجرہیں و بروکنگ کونسل کے رکن  ہیں 

انگریزی سے ترجمہ و تدوین

اشرف علی بستوی نئی دہلی

 Asia Times 
ایشا تائمز
http://www.asiatimes.co.in/urdu/Asia-Times-Special/2014/12/3470_
  

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔