حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

ہفتہ، 1 ستمبر، 2012

ایلینس کا زمین پر حملہ؟


مہمان کالم 

       ایلینس (Aliens )کا زمین پر حملہ؟ 

شفیق الرحمن : نئی دہلی 

خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا (دی نیشنل ایروناٹکس اینڈ ایڈمنسٹریشن) نے اس خبر کی تصدیق کردی ہے کہ Aliens (غیرارضی شریر مخلوق) نے زمین پر حملے شروع کردیئے ہیں۔ واضح رہے کہ پچھے پچاس ساٹھ برسوں سے اس غیرارضی مخلوق یعنی ایلینس پر مغربی دنیابالخصوص امریکہ میں ’ریسرچ‘ ہورہی ہے اور نہ صرف ریسرچ ہورہی ہے بلکہ ان سے رابطے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ اس پر صرف امریکی ادارے ہی کام نہیں کررہے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی کوششیں بھی اس میدان میں ہورہی ہیں۔ یہ پتہ لگانے کی کوششیں کی جارہی تھیں کہ کیا ایسی کوئی غیرارضی مخلوق پائی جاتی ہے جس سے مدد لی جاسکے، اگر پائی جاتی ہے تو کہاں؟ اور اس سے رابطے کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ خلائی تحقیق کے جہاں اور مقاصد ہوںگے ان میں ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے ۔ ماورائے ارض زندگی کے امکانات کا جائزہ لینے کے نام پر ریسرچ و تحقیق کایہ سلسلہ مغربی ملکوں میں جنگ عظیم دوئم کے معاً بعد ہی شروع ہوگیا ہے۔ اس پر سرکاری سرپرستی میں کام امریکہ کے علاوہ برطانیہ، روس اور چین میں بھی جاری ہے۔ برطانیہ کے پروجیکٹ کنڈائن (Project Condign) کی رپورٹ 2006ءمیں پہلی بار شائع ہوئی، اس سلسلے کی جو تفصیلات دستیاب ہیں ان کے مطابق فضا میں اڑتی ہوئی شئے کامشاہدہ و تجربہ اس جستجو کا سبب بنا۔ ابتدا میں ان فضا میں تیرتی ہوئی اشیا کانام یو ایف او (Unidentified Flying Object) رکھاگیا۔ کہاجاتاہے کہ یوں اس قسم کے مشاہدات و تجربات ہر زمانے میں ہوتے رہے ہیں مگر اس پرباقاعدہ تفتیش وتحقیق کا کام جنگ عظیم دوئم کے بعد شروع ہوا اور اس کی بتدا ایک امریکی تاجر کینتھ آرنالڈ سے ہوئی جو ایک دن اپنے جہاز میں واشنگٹن کے قریب کوہ رینر (Mount Rainier) کی فضاﺅں میں سیر کررہاتھا کہ اس نے نونہایت خوبصورت چیزوں کو وہاں اڑتے ہوئے دیکھا۔ یہ 24جون 1947ءکا دن تھا، حالاں کہ اس طرح کے واقعات اس سے پہلے بھی ہوئے تھے مگر میڈیا کے لئے مرکز توجہ آرنالڈ کے یہی مشاہدات و تجربات آبنے۔ یہ ایک سوال ہے، اسی کے بعد تو جیسے اس پر دنیا ٹوٹ پڑی، اس زمانے میں Rosewell کے مشاہدے کا واقعہ پیش آیا، اور یہ فوجی اور غیرفوجی دونوں طرح کی تحقیقات کا موضوع بن گیا۔ اس کا اندازہ اس سے کیاجاسکتا ہے کہ 1947-46 میں سویڈن کی فوج نے Ghosts rockets کے نام سے ایک مطالعاتی منصوبہ شروع کیا۔1947ءاور 1969ءکے دوران امریکی فضائیہ یعنی ایئرفورس نے Project Sign، Project Blue Book پر کام شروع کیا۔ کناڈا کی حکومت نے Project Magnet کے نام سے 1952-53ءمیں اس پر مطالعاتی کام کرایا۔ برازیل کی حکومت نے 1977ءمیں آپریشن ساسر (Operation Saucer) کے نام سے اس پر کام کاآغاز کیا۔ فرانس نے بھی اپنی خلائی ایجنسی کو اسی سال یعنی 1977ءمیں اس پر کام کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح یوروگوئے میں بھی 1989ءمیں اس پر ریسرچ کا آغاز ہوا۔ برطانیہ کا ذکر اوپر آچکا ہے۔
اس دوران غیرارضی مخلوق کی موجودگی کو افسانوی ادب کے ذریعہ بھی شہرت دی گئی اور بے شمار افسانے اور ناول اس عنوان پر لکھے گئے۔ یہی نہیں بلکہ اس پر دستاویزی فلمیں بھی بنیں۔ دنیا بھر میں مختلف سائنسی تحقیق کے ادارے اس کام کے لئے کھولے گئے۔ بروکنگس انسٹی ٹیوٹ اور رینڈکارپوریشن نے بھی اس میں خاصی دلچسپی لی اور اپنی رپورٹیں پیش کیں۔ ان کے علاوہ سی آئی اے جیسی خفیہ ایجنسیوں نے بھی اس پر کافی محنت کی، کافی سرمایہ صرف کیا۔ اب ناسا تو اس پر اپنی تمام تر توانائی صرف کررہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ محض عقل اور تجربے کو کسی شئے کے وجود کے لئے ٹھوس ثبوت ماننے والی مغربی دنیا کیا ایک واہمے کے پیچھے بھاگ رہی ہے؟ کیا ایک غیرحقیقی شئے کی تلاش میں اس نے پناہ سرمایہ اور توانائیاں صرف کرڈالی ہیں؟ جو قوم معمولی معمولی کام بھی بلاوجہ نہیں کرتی اس سے اس کی توقع رکھنا اور یہ سمجھنا کہ اس کا یہ فعل عبث ہے، نادانی تو ہوسکتی ہے ہوشیاری ہرگز نہیں۔ ان غیرارضی مخلوقات یعنی ایلینس کے حملوں کے سلسلے میں جو تفصیلات آچکی ہیں اگر صرف ان ہی کو سامنے رکھاجائے اور ان پر غورکیاجائے تو حقیقت سمجھ میں آسکتی ہے۔ سائنس فکشن اور فلموں میں Alien Invasion کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ یہ غیرارضی مخلوق یعنی ایلینس بدی کی ترجمان ہیں، جو زمین پر اس مقصد سے حملہ آور ہونا چاہتی ہیں کہ یہاں سے بنی نوع انسان کو نکال باہر کردیں اور اس کرہ پر اپنا اقتدار قائم کرلیں، یا انسان کو اپنا غلام بنالیں، اسے خوف و دہشت میں مبتلا کرکے اس پر اپنا خوف طاری کردیں، یہاں تک کہ اس کرہ کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیںگے۔ اقوام متحدہ کے ایک پینل نے بھی جس کی سربراہی ڈاکٹر جان میلے (John Malley) کررہے ہیں یہی بات کہی ہے کہ یہ غیرارضی مخلوق کرہ


 زمین پر حملہ آورہوچکی ہے، اس کے حملوں کا سلسلہ اکتوبر2011سے شروع ہوچکاہے اور یہ حملے دسمبر 2015ءتک جاری رہیںگے۔ اس پینل کی رپورٹ میں یہ کہاگیاہے کہ ایلینس ایک دوسرے کرہ سے جس کا نام اس رپورٹ میں Zeeba بتایاگیا ہے، یہ حملے کررہے ہیں اور کرہ زمین پر اپنی مکمل کنٹرول چاہتے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ اگر پرامن بقائے باہم کے لئے ابھی سے کوئی قدم نہیں اٹھایاگیا تو بہت بڑی مصیبت کھڑی ہوجائے گی اور پنسلوانیا اسٹیٹ یونی ورسٹی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایلینس کے ساتھ رابطے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور انہیں امیدہے کہ2012ءکے اواخر تک انسان کی ایلینس سے ملاقات ہوجائے گی۔ ایک دوسری رپورٹ یہ کہتی ہے کہ ایلینس کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوششیں ایک عرصے سے جاری ہیں، بلکہ ایک دستاویزکے مطابق تو امریکی حکومت نے ایلینس کے ساتھ خفیہ طورپر معاہدہ بھی کرلیاہے، اس حملے کے حوالے سے ایک بار پھر دنیا کے خاتمے کی بحث (Doomsday) بھی شروع ہوگئی ہے۔ اس پورے معاملے کو قصہ آدم و ابلیس کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں رب کریم کا یہ ارشاد : ”اے اولاد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کرادیا۔“(الاعراف:۷۲) غور طلب ہے خلائی تحقیق کے نام پر جو کچھ ہورہاہے اس کو بھی اسی تناظرمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔


مضمون نگار : سہ روزہ دعوت دہلی کے اڈ یٹر ہیں

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔